HomeUncategorizedکامیاب انسان ہمیشہ سادہ اور عاجز ہوتا ہے

کامیاب انسان ہمیشہ سادہ اور عاجز ہوتا ہے

سادگی کا حسن

کبھی کبھار زندگی ہمیں ایسے لوگوں سے ملواتی ہے جو بظاہر عام دکھائی دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ کردار، اخلاق اور عاجزی کا ایسا نمونہ ہوتے ہیں کہ دل ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ یہی لوگ حقیقی کامیابی کی علامت ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی کامیابی صرف دولت یا شہرت میں نہیں، بلکہ دلوں کو جیتنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں چھپی ہوتی ہے۔

یہ کہانی ایسے ہی ایک شخص کی ہے، جسے دنیا ایک عام مزدور سمجھتی تھی، لیکن اصل میں وہ ایک عظیم اور کامیاب انسان تھا، جو ہر دل میں اپنی سادگی اور عاجزی کی بدولت گھر کر گیا تھا۔

گاؤں کا درزی

پاکستان کے پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں “نور پور” میں ایک درزی رہتا تھا جس کا نام ماسٹر اقبال تھا۔ چھوٹا سا کپڑے سینے کا دکان، ایک چھوٹا سا گھر، اور دن بھر محنت کرنے والا نرم دل انسان۔ اُس کی دکان پر کوئی بھی آئے، وہ ہمیشہ مسکرا کر بات کرتا، نہ کبھی غصے میں آتا، نہ ہی کسی سے تلخی سے پیش آتا۔

ماسٹر اقبال کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے کام میں نہایت ماہر تھا لیکن کبھی بھی اپنی مہارت کا فخر نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ سادہ لباس، سادہ گفتگو اور سادہ اندازِ زندگی اختیار کرتا۔ گاؤں کے بزرگ اُسے دعائیں دیتے اور نوجوان اُسے مشورے لینے آتے۔

خدمت کا جذبہ

ماسٹر اقبال ہر روز صبح نمازِ فجر کے بعد دکان کھولتا، اور پہلے ایک گھنٹہ گاؤں کے اُن لوگوں کے کپڑے مفت سیتا جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ بیوائیں، یتیم، یا وہ جو کسی مشکل میں ہوتے، وہ بغیر مانگے ان کے لیے کام کر دیتا۔ نہ کوئی بینر، نہ تشہیر، نہ کوئی شکوہ۔ صرف اللہ کی رضا اور خدمت کا جذبہ۔

ایک دن ایک نوجوان، جس کا نام حمزہ تھا، دکان پر آیا۔ اُس کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے تھے، لیکن نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ ماسٹر اقبال نے اسے بغیر سوال کیے بٹھایا، پانی پلایا اور پوچھا، بیٹا، کیا کام ہے؟”

حمزہ نے کہا، “انکل، میرے پاس نئے کپڑوں کے لیے پیسے نہیں

ماسٹر اقبال نے مسکرا کر کہا، “کپڑے میں دے دوں گا، بس دل سے دعا دے دینا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب حمزہ کی زندگی بدل گئی۔

ماسٹر اقبال کی سادہ درزی کی دکان

سادگی میں چھپی عظمت

حمزہ ایک ذہین نوجوان تھا، لیکن غربت نے اس کے خوابوں کو دبا دیا تھا۔ ماسٹر اقبال نے نہ صرف اسے کپڑے دیے، بلکہ اس سے کہا، بیٹا، اگر تم پڑھنا چاہتے ہو تو میں تمہاری فیس بھرنے کو تیار ہوں۔

حمزہ حیران ہوا، آپ؟ مگر آپ تو خود

ماسٹر اقبال نے کہا، “بیٹا، میرے پاس جو ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، اور جو اللہ کا دیا ہو، اسے اللہ کے بندوں پر لگانا چاہیے۔

حمزہ نے اُن کی بات کو دل سے لگایا، اور پڑھائی میں محنت شروع کر دی۔ ماسٹر اقبال نے اُسے ہر ماہ تھوڑی تھوڑی رقم دی، اور اس کے تعلیمی اخراجات اٹھائے۔

بغیر مانگے غریب کی مدد

وقت کا پلٹنا

پانچ سال بعد، حمزہ شہر کی ایک بڑی یونیورسٹی سے انجینئر بن گیا۔ ایک اچھی نوکری، شاندار مستقبل، لیکن دل میں عاجزی وہی ماسٹر اقبال سے سیکھی ہوئی تھی۔

ایک دن وہ واپس اپنے گاؤں آیا، اور سیدھا ماسٹر اقبال کی دکان پر گیا۔ وہ منظر دیدنی تھا۔ ماسٹر اقبال اب بھی وہی کپڑے پہنے، وہی پرانی سلائی مشین، اور وہی سادہ انداز۔

حمزہ نے سلام کیا اور کہا، “انکل، آپ نے میری دنیا بدل دی۔

ماسٹر اقبال مسکرایا، بیٹا، دنیا تو وہی ہوتی ہے، ہم بدلتے ہیں۔ بس انسان بن کر رہنا، یہی کامیابی ہے۔

دنیا کی نگاہ میں نہیں، اللہ کی نگاہ میں کامیاب۔

بڑا ہو کر حمزہ ماسٹر اقبال سے ملتا ہے

حمزہ نے اپنے دوستوں سے کہا، “مجھے کامیاب بنانے والا کوئی بزنس مین یا سرمایہ دار نہیں تھا، بلکہ ایک سادہ سا درزی تھا، جس کے دل میں عاجزی، محبت اور خلوص تھا۔

جب حمزہ نے سوشل میڈیا پر ماسٹر اقبال کی کہانی شیئر کی، تو ہزاروں لوگوں نے اُن کی تعریف کی۔ میڈیا نے اُن پر ڈاکیومنٹری بنائی، اور کئی اداروں نے اُنہیں ایوارڈز دیے۔لیکن ماسٹر اقبال نے کبھی اپنی دکان نہیں چھوڑی، نہ ہی اپنا انداز بدلا۔ وہ کہتے تھے، جو عاجزی دولت آنے سے ختم ہو جائے، وہ عاجزی نہیں، دکھاوا ہے۔

سچائی اور عاجزی کا صلہ

ایک دن ایک بڑا ٹی وی چینل انٹرویو لینے آیا۔ ماسٹر اقبال سے پوچھا گیا

“آپ کے شاگرد اب بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں، کچھ تو بیرون ملک جا چکے ہیں۔ آپ خود کیوں سادہ زندگی گزار رہے ہیں؟

انہوں نے مسکرا کر کہا۔

“کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بڑی گاڑی میں بیٹھیں، کامیابی یہ ہے کہ کوئی تھکا ہوا مزدور آپ کے پاس آ کر مسکرائے اور دُعا دے۔”

یہ جواب سن کر انٹرویو لینے والا بھی خاموش ہو گیا۔ دل کی گہرائی سے نکلے یہ الفاظ ہر دل میں اتر گئے۔

دلوں کی دنیا جیتنے والا انسان۔

آج ماسٹر اقبال کی عمر ستر سال ہے، لیکن اُن کی دکان اب بھی کھلی ہے۔ ہر جمعہ کو وہ یتیم بچوں کو کپڑے سل کر دیتے ہیں۔ اُن کا فلسفہ ہے۔
“جس دن انسان عاجز ہونا چھوڑ دے، وہ انسان ہونا بھی چھوڑ دیتا ہے۔”

گاؤں کے ہر دل میں اُن کے لیے محبت ہے، شہر کے لوگ بھی اُن سے ملنے آتے ہیں۔ مگر وہ بدلے نہیں۔

حمزہ کہتا ہے، اگر آج میں کامیاب ہوں تو اس کی وجہ دولت نہیں، ماسٹر اقبال کی سادہ زندگی اور عاجزی ہے جس نے مجھے اصل انسان بنایا۔

کہانی کا پیغام

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی کا اصل چہرہ عاجزی، سادگی، خدمت اور اخلاص میں چھپا ہوتا ہے۔ دنیا عارضی ہے، لیکن دلوں میں جگہ بنانے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

کامیاب انسان وہ نہیں جو دوسروں سے اونچا ہو، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کے لیے جھک کر اُن کے مسائل کو سنوارے۔

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

  1. The website design looks great—clean, user-friendly, and visually appealing! It definitely has the potential to attract more visitors. Maybe adding even more engaging content (like interactive posts, videos, or expert insights) could take it to the next level. Keep up the good work!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments