HomeUncategorizedرحم دل ہونا انسانیت کی اصل پہچان ہے

رحم دل ہونا انسانیت کی اصل پہچان ہے

تمہید: انسانیت کا اصل جوہر

انسانیت کی اصل روح محبت، ہمدردی اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے میں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے ترقی تو کی، ٹیکنالوجی میں بھی آگے بڑھا، مگر دلوں میں احساس اور رحم کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے دنیا کی چمک دمک کو چھوڑ کر انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصدِ زندگی بنایا، اور یہ ثابت کر دیا کہ رحم دل ہونا ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔

کرداروں کا تعارف

یہ کہانی ایک متوسط طبقے کے نوجوان، علی حسن کی ہے جو ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا، مگر اس کے خواب بہت بڑے تھے۔ علی بچپن سے ہی حساس دل کا مالک تھا۔ جب بھی کسی کو تکلیف میں دیکھتا، تو اس کا دل بھر آتا۔ والدین نے اسے محنت، دیانت داری اور رحم دلی کا سبق سکھایا۔

بچپن کی پہلی جھلک

علی صرف سات سال کا تھا جب ایک دن اس نے اسکول جاتے ہوئے ایک زخمی کتے کو سڑک کنارے کراہتے دیکھا۔ بچے عام طور پر ڈر جاتے یا نظر انداز کر دیتے، مگر علی نے ایسا نہ کیا۔ وہ فوراً بھاگا، قریبی نلکے سے پانی بھر کر لایا، کتے کو پلایا، اس کے زخم صاف کیے اور اسے ایک محفوظ جگہ پر پہنچایا۔ اس دن سے اسے یہ احساس ہوا کہ چھوٹے چھوٹے کام بھی کسی کی زندگی بدل سکتے ہیں۔

رحم دل بچے کی ایک مثال: زخمی جانور کی مدد کا جذبہ

شہر کی طرف قدم

جب علی میٹرک میں اعلیٰ نمبرات کے ساتھ کامیاب ہوا، تو اسے شہر کے ایک بڑے کالج میں داخلہ ملا۔ یہ اس کے لیے نیا جہاں تھا۔ مصروف زندگی، بےحس چہرے، اور دلوں سے خالی باتیں۔ مگر علی کے دل میں وہی پرانی انسانیت کی شمع روشن رہی۔ وہ روز کالج سے واپسی پر ریلوے اسٹیشن کے قریب بیٹھے بے گھر افراد کو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور دیتا۔

ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت فٹ پاتھ پر سردی سے کانپ رہی ہے۔ لوگ گزرتے رہے، مگر کسی نے نہ دیکھا نہ پوچھا۔ علی نے اپنا کوٹ اتارا اور اس عورت کو اوڑھا دیا۔ عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ علی نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کو بنائے گا۔

سرد رات اور ایک نرم دل نوجوان: بوڑھی عورت کے لیے انسانیت کا روشن چراغ

انسانیت کا سفر

علی نے اپنے جیب خرچ سے بچت کر کے چھوٹا سا “رحم فاؤنڈیشن” کے نام سے خیراتی ادارہ قائم کیا۔ شروع میں صرف تین دوست اس کے ساتھ تھے، مگر جلد ہی اس کی سچائی، خلوص اور نیت کو دیکھ کر لوگ جڑنے لگے۔ اس نے ریڑھی والوں، یتیم بچوں، ضعیف افراد، اور بیماروں کی مدد کا بیڑا اٹھایا۔

یتیم خانہ کی تعمیر

علی نے شہر کے ایک ویران علاقے میں یتیم بچوں کے لیے چھوٹا سا مرکز بنایا، جہاں بچوں کو تعلیم، کھانا اور محبت ملتی۔ یہ مرکز آہستہ آہستہ ایک یتیم خانہ میں بدل گیا، جہاں سو سے زائد بچے رہنے لگے۔ علی ان سب بچوں کو اپنے بچے سمجھتا تھا۔ ان کی سالگرہ مناتا، ان کے ساتھ کھیلتا اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ان کے ساتھ ہوتا۔

یتیم بچوں کی مسکراہٹیں: ایک نوجوان کا خواب اور انسانیت کی روشنی

سردیوں کی مہم

ایک سال سردیاں بہت سخت تھیں۔ علی نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی: “رحم کی چادر، زندگی کا سہارا”۔ اس مہم کے تحت ہزاروں کمبل، جیکٹیں، اور گرم کپڑے تقسیم کیے گئے۔ علی کا مقصد صرف اشیاء دینا نہیں تھا، بلکہ احساس دینا تھا کہ کوئی ہے جو آپ کے دکھ کو سمجھتا ہے۔

سچائی کی آزمائش

ایک دن علی پر جھوٹا الزام لگا دیا گیا کہ وہ اپنے ادارے کے ذریعے پیسے بنا رہا ہے۔ میڈیا نے بھی بغیر تحقیق کے خبر چلا دی۔ لوگ مایوس ہوئے، چندے رک گئے، مگر علی نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے عدالت میں کیس کیا، تمام ریکارڈ پیش کیے اور آخر کار بےگناہ ثابت ہوا۔ اس واقعے نے اس کی شہرت میں اور اضافہ کیا۔ لوگوں کو احساس ہوا کہ سچائی ہمیشہ غالب آتی ہے۔

علی کا انعام

کچھ سال بعد علی کو حکومت کی طرف سے “ہلالِ انسانیت” ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مگر اس نے کہا
“میرا اصل انعام وہ مسکراہٹ ہے جو مجھے ہر اس چہرے پر نظر آتی ہے جس کی میں مدد کرتا ہوں۔”

ایک دن کا واقعہ

ایک دن ایک نوجوان بےروزگار علی کے پاس آیا۔ وہ بہت دکھی تھا، کہنے لگا، “میرے پاس کچھ بھی نہیں، آپ نے سب کچھ کیسے حاصل کیا؟”

علی نے مسکرا کر کہا:
“میرے پاس بھی کچھ نہیں تھا، صرف ایک چیز تھی — رحم دل ہونے کی طاقت۔ یہی میری کامیابی کا راز ہے۔”

اس نوجوان نے اسی دن سے علی کے ادارے میں رضاکارانہ کام شروع کر دیا، اور کچھ ہی سالوں میں خود بھی ایک فلاحی ادارے کا سربراہ بن گیا۔

معاشرے پر اثرات

علی کی کوششوں نے پورے شہر کو بدل دیا۔ لوگ اب ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے، نوجوان رضاکار بن گئے، اسکولوں میں انسانیت کے اسباق دیے جانے لگے۔ اور یوں رحم دلی ایک تحریک بن گئی، جو پورے ملک میں پھیلنے لگی۔

کہانی کا سبق

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ رحم دل ہونا نہ صرف ایک نیکی ہے بلکہ ایک طاقت ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے، جو دلوں کو جوڑتی ہے، جو ایک بےرنگ دنیا میں محبت کے رنگ بھرتی ہے۔ علی حسن نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو، دل میں درد ہو، اور عمل میں سچائی ہو، تو ایک عام انسان بھی غیرمعمولی کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔

اختتامیہ: آئیں رحم دلی کو اپنائیں

دنیا کو بدلنے کے لیے ہمیں بڑے وسائل یا طاقت کی ضرورت نہیں، صرف ایک رحم دل دل چاہیے۔ اگر ہم روز ایک نیکی بھی کر لیں، کسی کو مسکرا کر دیکھ لیں، کسی بھوکے کو کھانا دے دیں، کسی زخمی کو مرہم دے دیں — تو ہم علی حسن جیسے بن سکتے ہیں۔

یاد رکھیں، “رحم دل ہونا انسانیت کی اصل پہچان ہے”۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments