ایک گھنے جنگل میں امن، سکون اور دوستی کا ماحول تھا۔ ہر جانور اپنے اپنے کاموں میں مگن رہتا اور دوسروں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ اس جنگل کا بادشاہ ایک نیک دل اور انصاف پسند شیر تھا جس کا نام بادشاہ شیر دل تھا۔
شیر دل صرف طاقتور ہی نہیں بلکہ نہایت عقلمند اور نرم دل بھی تھا۔ وہ روزانہ جنگل کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت کرتا، جانوروں کی شکایات سنتا اور فوری انصاف فراہم کرتا۔ اسی جنگل میں ایک ہوشیار اور چالاک خرگوش بھی رہتا تھا جس کا نام منو خرگوش تھا۔ منو خرگوش ہر کسی کی مدد کرتا اور جانوروں میں اس کی عزت تھی۔ ایک دن جنگل میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب کو حیران کر دیا۔

لومڑی کا الزام
ایک صبح، بادشاہ شیر دل اپنے دربار میں بیٹھا تھا جب ایک روتی ہوئی لومڑی دوڑی دوڑی آئی۔
بادشاہ سلامت! لومڑی ہانپتے ہوئے بولی، مجھے انصاف چاہیے۔
کیا ہوا لومڑی؟ تم کیوں پریشان ہو؟ شیر نے نرمی سے پوچھا۔
لومڑی بولی، جناب! کل رات کسی نے میری جھونپڑی میں گھس کر میرے بچوں کے لیے جمع کیا ہوا سارا کھانا چرا لیا۔ میں نے صرف ایک ہی پرندے کو وہاں آتے دیکھا… ایک کبوتر!
درختوں پر بیٹھے جانوروں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ شیر نے درباریوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ کبوتر ہی تھا؟ شیر نے احتیاط سے پوچھا۔
جی ہاں! میں نے اس کی چونچ میں دانے دیکھے، اور وہ بار بار میرے آنگن کے پاس آ رہا تھا۔
شیر نے فوراً سپاہیوں کو حکم دیا کہ کبوتر کو دربار میں حاضر کیا جائے۔
کبوتر کی پیشی
کچھ ہی دیر میں ایک سفید رنگ کا معصوم کبوتر حاضر کیا گیا۔ اس کا نام صفدر تھا اور وہ سب کا دوست مانا جاتا تھا۔ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
صفدر کبوتر! شیر نے کہا، تم پر چوری کا الزام ہے، تم کیا کہتے ہو؟
صفدر نے گھبرا کر کہا، بادشاہ سلامت! میں نے کسی کا کھانا نہیں چرایا۔ میں تو کل رات بار بار صرف اپنے بچے کے لیے دانے اکٹھے کر رہا تھا، کیونکہ وہ بیمار تھا۔

لومڑی فوراً بولی، جھوٹ! یہی تھا جو میری جھونپڑی کے آس پاس گھوم رہا تھا۔
شیر نے گہری سانس لی، پھر حکم دیا، ہم بغیر گواہی یا ثبوت کے فیصلہ نہیں کریں گے۔ کسی کو اگر کچھ معلوم ہے تو وہ آگے آئے۔
چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر ایک نرم سی آواز آئی، مجھے کچھ پتہ ہے، حضور
سب نے پلٹ کر دیکھا، منو خرگوش دربار میں داخل ہو رہا تھا۔
خرگوش کی تحقیق
منو! تم کچھ جانتے ہو؟ شیر نے حیرت سے پوچھا۔
جی حضور، میں کل رات دیر تک جاگ رہا تھا۔ میرے گھر کے قریب سے ایک سایہ گزرا۔ میں نے سمجھا کوئی شکاری آیا ہے، اس لیے میں چھپ کر دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ لومڑی خود کچھ کھانے کا سامان چھپا رہی تھی، اور صبح خود آ کر رونے لگی۔
پورے دربار میں سنّاٹا چھا گیا۔
شیر نے فوراً پوچھا، کیا تم یہ ثابت کر سکتے ہو؟
منو نے کہا، جی ہاں، وہ کھانا آج بھی اسی درخت کے نیچے چھپا ہوا ہے جہاں میں نے اسے دیکھا تھا۔ اگر اجازت ہو تو میں ابھی جا کر دکھا سکتا ہوں۔
شیر نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ منو کے ساتھ جائیں۔

سچ کا پردہ فاش
کچھ ہی دیر میں سپاہی واپس آئے۔ ان کے ہاتھوں میں ایک تھیلا تھا جس میں سوکھے پھل، دانے اور چند لکڑیاں تھیں۔ سپاہی بولے، حضور! یہ سب کچھ اس جگہ سے ملا جہاں منو نے بتایا تھا۔
شیر نے لومڑی کی طرف دیکھا، کیا تم کچھ کہنا چاہو گی؟
لومڑی کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ وہ گھبرا کر بولی، معاف کیجئے بادشاہ سلامت، میں نے جھوٹ بولا تھا۔ میرے بچے بھوکے تھے، میں نے یہ سب کیا۔ میں نے سوچا الزام کبوتر پر لگ جائے گا اور میں بچ جاؤں گی۔
شیر نے سخت لہجے میں کہا، تم نے نہ صرف چوری کی بلکہ ایک معصوم پر الزام لگا کر جنگل کے قانون کو پامال کیا۔ تمہیں اس کا انجام بھگتنا ہو گا۔ لیکن چونکہ تم نے سچ قبول کر لیا ہے اور تمہاری مجبوری تھی، میں تمہیں سزا میں نرمی دیتا ہوں۔
شیر نے فیصلہ سنایا، تمہیں ایک مہینہ جنگل کے یتیم بچوں کے لیے خوراک جمع کرنی ہوگی۔ اور صفدر کبوتر سے معافی مانگنی ہوگی۔
لومڑی نے آنسو بہاتے ہوئے صفدر سے معافی مانگی۔
دوستی کا نیا باب
شیر نے منو خرگوش کی طرف دیکھا اور کہا، منو! تم نے انصاف کے لیے قدم بڑھایا۔ یہ جنگل تم جیسے سچائی پسند دوستوں کی وجہ سے محفوظ ہے۔
سب جانوروں نے منو کے لیے تالیاں بجائیں۔ صفدر کبوتر نے آگے بڑھ کر منو کو گلے لگا لیا۔
اگر تم نہ ہوتے تو میں بے گناہ سزا پا جاتا! صفدر بولا۔
منو نے مسکرا کر کہا، دوست وہی جو مشکل وقت میں کام آئے۔
شیر نے دربار برخاست کرتے ہوئے کہا، آج کا سبق یہ ہے کہ سچائی چھپ نہیں سکتی، اور جو دوسروں کی مدد کرتا ہے، وہی اصل بادشاہ ہوتا ہے۔
اس دن کے بعد جنگل میں منو خرگوش، صفدر کبوتر اور حتیٰ کہ لومڑی کے درمیان بھی نئی دوستی کا آغاز ہوا۔ لومڑی نے اپنی غلطی سے سبق سیکھا اور اب وہ روز دوسروں کی مدد کرنے لگی۔
کئی دنوں بعد شیر دل نے جنگل میں ایک عام دربار بلایا جہاں ہر جانور کو آنے کی اجازت تھی۔ اس دربار میں بچوں کے لیے ایک خصوصی نشست رکھی گئی تھی جس میں منو خرگوش اور صفدر کبوتر نے اپنی کہانی خود سنائی۔
شیر نے اعلان کیا، آج سے جنگل کے تمام اسکولوں میں یہ سبق پڑھایا جائے گا کہ سچائی، دوستی اور ہمدردی سب سے بڑی طاقتیں ہیں۔
بچوں نے تالیاں بجائیں، بڑوں نے خوشی سے سر ہلایا، اور پورا جنگل خوشیوں سے گونج اٹھا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ
کبھی کسی پر بغیر ثبوت کے الزام نہ لگائیں۔
سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے، چاہے دیر سے آئے۔
دوستی کا اصل مطلب مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، انصاف اور ہمدردی ہر رشتے کو مضبوط بناتی ہے۔