ایک چھوٹے سے چوہے کی بڑی مہمان نوازی
جنگل میں ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے مٹی میں کھدی ایک نرم و نازک سی سرنگ تھی، جو ایک چوہے کا گھر تھی۔ اس چوہے کا نام “منّو” تھا۔ منّو چھوٹا ضرور تھا، مگر اس کا دل بہت بڑا تھا۔ وہ دوسروں کی مدد کرنا، مہمانوں کا خیال رکھنا اور مسکرانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔
منّو کی مہمان نوازی جنگل کے کئی جانوروں میں مشہور تھی۔ آج کی کہانی اسی محبت، اخلاص، خلوص، اور تعاون پر مبنی ہے، جو ایک چوہے کی سادہ زندگی کو عظمت کی علامت بنا دیتی ہے۔
غیر متوقع مہمان
ایک دن آسمان پر کالے بادل چھا گئے، اور زوردار بارش شروع ہو گئی۔ ہر جانور اپنی پناہ گاہ میں چھپنے لگا۔ لیکن ایک ننھی گلہری جس کا نام “چنچن” تھا، سفر میں تھی اور بارش نے اُسے گھیر لیا۔
وہ بھاگتی بھاگتی منّو کے بل تک پہنچی۔ دروازے پر دستک دی۔
ٹھک ٹھک
منّو نے دروازہ کھولا تو بھیگی ہوئی، کانپتی ہوئی گلہری کو دیکھا۔ اس نے فوراً کہا
“آ جاؤ، چنچن! یہ دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔”

چنچن اندر آئی۔ منّو نے اُسے تولیہ دیا، آگ جلائی، اور گرم دودھ پیش کیا۔ چنچن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے کہا:
“تمہارے جیسے دوست بہت کم ہوتے ہیں۔”
منّو نے مسکرا کر جواب دیا، “اصل دوستی وہی ہے جو مشکل میں کام آئے۔”
ایک کے بعد دوسرا مہمان
بارش کئی دنوں تک جاری رہی۔ ایک رات جب سب سو رہے تھے، منّو کے دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔
اس بار دروازے پر ایک بھیگا ہوا ننھا سا خرگوش کھڑا تھا، جس کا نام “ٹبی” تھا۔ منّو نے اُسے بھی خوش آمدید کہا، صاف کمبل دیا اور خشک کھانا پیش کیا۔ یوں ایک کے بعد ایک مہمان آتے گئے۔
کچھ دنوں میں منّو کے بل میں چنچن، ٹبی، ایک چھوٹا مینڈک “چھپن”، اور کبوتری “بلیکی” بھی شامل ہو گئیں۔ سب بارش سے بے گھر ہو چکے تھے، لیکن منّو کی چھوٹی سی سرنگ ان سب کے لیے جنت بن چکی تھی۔

دل سے دی گئی محبت
منّو کے پاس وسائل محدود تھے، لیکن محبت، عزت، خلوص اور مہمان نوازی لامحدود تھی۔ وہ خود کم کھاتا، لیکن دوسروں کا پیٹ بھرتا۔ اپنے چھوٹے ہاتھوں سے جنگل کے بیج، خشک میوے، اور جنگلی شہد جمع کرتا اور سب کو کھلاتا۔
چنچن اس کی مدد میں ہاتھ بٹاتی، ٹبی کھانا بانٹتا، بلیکی صفائی کرتی، اور چھپن تفریح کا سامان فراہم کرتا۔
یہ سب مہمان منّو کے حسن سلوک سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ اب مہمان نہ رہے بلکہ ایک خاندان بن گئے۔
مشکل وقت کا انعام
بارش کے ختم ہونے کے بعد، سب دوست واپس اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے۔ جانے سے پہلے انہوں نے منّو کے لیے ایک خاص تحفہ تیار کیا۔ جنگل کے بیچوں بیچ، سب نے مل کر ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر بنایا، جو کہ منّو کی مہمان نوازی کی علامت تھا۔
جب منّو وہاں پہنچا، تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
چنچن نے کہا، یہ تمہاری محبت کا انعام ہے۔ تم نے ہمیں چھوٹے بل میں پناہ دی، اب ہم تمہیں بڑا دل دے رہے ہیں۔
منّو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، لیکن یہ آنسو خوشی کے تھے۔

مہمان نوازی کا پیغام
وقت گزرتا گیا، منّو کا گھر جنگل میں “محبت کا مرکز” بن گیا۔ جو بھی مسافر یا بے گھر جانور ہوتا، وہ جانتا تھا کہ منّو کے دروازے پر دستک دینے سے بھوک، سردی اور تنہائی سب ختم ہو جاتی ہیں۔
منّو اب صرف ایک چوہا نہیں تھا، بلکہ مہربانی، مہمان نوازی، اور انسانیت کی اعلیٰ مثال بن چکا تھا۔
نتیجہ
یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عظمت دولت سے نہیں، نیت اور سلوک سے حاصل ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کام، اگر خلوص دل سے کیے جائیں، تو وہ بڑے اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ مہمان نوازی ایک اخلاقی خوبی ہے جو انسان اور معاشرے دونوں کو خوبصورت بناتی ہے۔