HomeUncategorizedعجیب جوتے اور شرارتی بندر

عجیب جوتے اور شرارتی بندر

عجیب و غریب جوتے اور جنگل کا ہنسی مذاق بھرا سفر – بچوں کے لیے سبق آموز اور مزاحیہ کہانی

ابتدائیہ

ایک مرتبہ کا ذکر ہے، ایک خوبصورت گاؤں کے درمیان علی نامی ایک ذہین، شرارتی اور حد سے زیادہ تجسس والا لڑکا رہتا تھا۔ علی کی شرارتیں اتنی مشہور تھیں کہ گاؤں کی مرغیاں بھی اسے دیکھ کر بھاگ جایا کرتی تھیں۔ علی کو کھیل کود، دوستی، اور مزے مزے کی باتیں بہت پسند تھیں، اور سب سے زیادہ وہ نئی جگہیں دریافت کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔

ایک دن شام کے وقت جب علی کی اماں نے اس کے ہاتھ سے چمچ چھینا (کیونکہ وہ کھانے کے بجائے سوپ سے بلبلے بنا رہا تھا)، علی نے فیصلہ کیا کہ اب اسے ایک ایڈونچر پر جانا ہے۔ اور اس بار، وہ اپنے تین دوستوں بلال، زینب، اور حمزہ کے ساتھ قریبی جنگل کی سیر پر نکلنے والا تھا۔

منصوبہ بن گیا، مزے شروع

چاروں دوستوں نے اپنے تھیلے بھرے۔ کسی نے بسکٹ رکھے، کسی نے کیلے، علی نے تو آم کے ساتھ آم کے چھلکے بھی رکھ لیے کہ اگر کچھ نہ ہوا تو کم از کم چھلکوں سے پھسل کر ہنسی تو آ جائے گی۔ زینب نے کہا، علی یہ کیا مذاق ہے؟ علی نے جواب دیا، یہ کوئی عام سیر نہیں، یہ ہے مہان ایڈونچر۔

اور یوں، سب نے اپنی چپلیں مضبوطی سے پہنی، درختوں کو سلام کیا اور چل پڑے جنگل کی جانب۔

جنگل میں قہقہوں کی بارش

جنگل میں داخل ہوتے ہی علی کا پہلا جملہ تھا یہاں تو ہوا بھی ٹھنڈی اور فری میں ہے

رنگ برنگے پرندے گانا گا رہے تھے، کچھ تو جیسے اپنی خود کی میوزیکل پارٹی میں مصروف تھے۔ بندر درختوں سے لٹک رہے تھے اور مور اپنی دم کو ایسے پھیلا رہے تھے جیسے کوئی فیشن شو ہو رہا ہو۔

حمزہ نے زور سے کہا، ارے یہ دیکھو ایک خرگوش کانوں میں ایئرپڈز ڈالے بیٹھا ہے بلال بولا، نہیں یار، وہ تو دراصل لمبے کان ہیں… سب زور زور سے ہنسنے لگے۔

عجیب و غریب جوتوں کی انٹری

جنگل کے بیچوں بیچ علی کی نظر ایک چمک دار چیز پر پڑی۔ وہ ایک چمچماتے جوتوں کا جوڑا تھا، جو ایسے رکھے تھے جیسے کسی نے پکنک کے بعد وہیں اتار دیے ہوں۔

علی نے فوراً کہا، یہ تو لگتا ہے کسی بہت ماڈرن بندر کے جوتے ہیں

زینب نے خبردار کیا، علی نہ چھونا، یہ کوئی عجیب سی چیز لگتی ہے۔

مگر علی کہاں باز آنے والا تھا؟ اس نے فوراً جوتے اٹھائے اور پہن لیے۔ اور تب ہوا کچھ ایسا، جس نے سب کی ہنسی چھڑا دی۔

جنگل میں بچوں کی ایڈونچر بھری سیر اور چمکتے جوتوں کی دریافت

جوتے چلے، علی بھی چلا

جوتے پہننا تھا کہ علی کے پاؤں نے اپنا دماغ خود ہی بنا لیا۔ پہلے تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے تھے، جیسے واک پہ جا رہے ہوں۔ پھر اچانک وہ دوڑنے لگے اور علی کی آواز آئی
ارے بھئی میرے پیر میرے نہیں رہے

وہ ایک درخت کی طرف بھاگا، پھر دوسرے کی طرف۔ ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے وہ جنگل کا نیا رقاص بن چکا ہو۔ دوست پیچھے بھاگتے، ہنستے، اور ویڈیو بناتے جا رہے تھے۔
یہ تو وائرل ہونے والا ہے بلال نے قہقہہ لگایا۔

چمچماتے جوتے پہن کر دوڑتا علی اور ہنستے ہوئے دوستوں کا منظر

شرارتی بندر کی خواہش

ایک درخت پر بیٹھا بندر یہ سب منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے قہقہہ مارا اور کہا اگر تم سنبھال نہیں سکتے تو مجھے دو میں اچھلنے کودنے میں ماہر ہوں

علی نے جوتے اتار کر بندر کی طرف اچھال دیے۔ بندر نے خوشی خوشی انہیں پہنا، اور پھر شروع ہوا جنگل کا سب سے زیادہ ایکشن سے بھرپور کامیڈی سین۔

بندر نے قلابازیاں کھائیں، درختوں سے ٹکرایا، زمین پر پھسل گیا، اور چیخا، بھائی مجھے بخش دو یہ جوتے نہیں، ریموٹ کنٹرول سپر اسپیڈی اسکیتز ہیں

جوتوں کی چالاکی، بندر کی بھاگ دوڑ

جوتے بندر کو اس تیزی سے دوڑانے لگے کہ وہ چیختا جا رہا تھا، یہ تو بندری ڈانس شو بن گیا ہے زینب نے کہا، اب یہ وائرل ویڈیو کا دوسرا حصہ ہوگا حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا، بندر بھائی، یہی ہوتا ہے جب بغیر لائسنس کے اسپیڈ بوسٹر چلاو

بندر کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ اس نے روتے ہوئے جوتوں سے کہا، بس کرو بھائی میں تو بس خوشی میں پہنے تھے، زندگی کی دوڑ نہیں جیتنی تھی

آخر کار، جوتے رک گئے۔ بندر نے انہیں ایسے اتارا جیسے کوئی گرم آلو ہاتھ میں پکڑ لے، اور پھر غصے میں درختوں کے پیچھے غائب ہو گیا۔

جنگل میں چمکدار جوتوں کے ساتھ مزاحیہ منظر

گھر واپسی اور سب سے اہم سبق

علی نے گہری سانس لی، زمین پر بیٹھا، اور مسکرا کر بولا یاد رکھو دوستو، ہر چمکنے والی چیز قیمتی نہیں ہوتی، اور کچھ چیزیں دیکھنے میں جتنی مزے دار لگتی ہیں، اندر سے اتنی ہی تھکا دینے والی ہوتی ہیں۔

زینب بولی، اور جوتے ہو تو ایسے، جو بندر کو بھی تھکا دیں

سب ہنستے ہوئے جنگل سے باہر نکلے، راستے بھر قہقہے گونجتے رہے۔

کہانی کا اخلاقی سبق

ہر چمکنے والی چیز کام کی نہیں ہوتی۔

کسی بھی چیز کو استعمال کرنے سے پہلے سوچ بچار کرنا ضروری ہے۔

مزاح بھی زندگی کا حصہ ہے، لیکن احتیاط اس سے بھی زیادہ ضروری۔

دوستوں کے ساتھ گزارا گیا وقت ہمیشہ یادگار بن جاتا ہے – چاہے بندر دوڑا ہو یا علی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments