قاسم اور لالٹین کا انعام: ایک سچائی کی روشن کہانی
ایک سرسبز و شاداب وادی کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ اس گاؤں کے مکین سادہ زندگی گزارتے تھے، ان کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی باتوں میں چھپی ہوتیں۔ انہی خوش باش لوگوں میں ایک غریب مگر باکردار کسان احمد کا خاندان بھی شامل تھا۔ احمد کے تین بچے تھے، جن میں سب سے چھوٹا اور چہیتا قاسم تھا۔
قاسم کی عمر بمشکل دس سال تھی، مگر اس کے اخلاق و کردار بڑے بڑوں کو بھی حیران کر دیتے۔ قاسم شروع سے ہی نہایت سچ بولنے والا، ایماندار، اور صاف گو لڑکا تھا۔ اس کے والدین نے اسے بچپن سے ہی سچ بولنے کی اہمیت سکھائی تھی۔ احمد اکثر کہا کرتے، بیٹا، سچ بولنے والا کبھی ہارتا نہیں، سچ وقتی طور پر تکلیف دے سکتا ہے، مگر انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔
قاسم نے والد کے ان الفاظ کو دل سے اپنا لیا تھا۔ جب کبھی کوئی دوست جھوٹ بول کر مصیبت سے بچنے کی کوشش کرتا، قاسم ڈٹ کر سچ بولتا، چاہے اس کے بدلے میں اسے ڈانٹ پڑے یا سزا۔
گاؤں کے سکول میں خاص اعلان
قاسم گاؤں کے سرکاری سکول میں پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ اس کا سکول چھوٹا سا تھا مگر وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب سلیم صاحب نہایت دیانتدار اور ذہین انسان تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ بچوں میں ایمانداری اور سچائی کی عادت پختہ ہو جائے۔
ایک دن اسمبلی کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے مائیک پر آ کر اعلان کیا،
تمام طلباء توجہ دیں! کل سے ہم ایک خاص مقابلے کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، جس کا مقصد بچوں میں سچ بولنے اور ایمانداری کو فروغ دینا ہے۔ اس مقابلے میں ہر طالب علم کو ایک لالٹین دی جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ یہ لالٹین اگلے دن صبح تک جلتی رہنی چاہیے۔ جو طالب علم ایمانداری کے ساتھ اپنی لالٹین کو لے کر آئے گا، اس کا امتحان لیا جائے گا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا نہیں۔
سکول کے صحن میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب بچے بہت پرجوش ہو گئے۔ قاسم بھی خوش تھا، مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ ایک عزم بھی تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ مقابلہ سچائی کا امتحان ہے۔
لالٹین کی حفاظت
اسی دن شام کو سب بچوں کو اپنی اپنی لالٹین دی گئی۔ ہر لالٹین میں تیل بھرا گیا اور بتی جلائی گئی۔ سب کو تاکید کی گئی کہ وہ لالٹین کو نہ بجھنے دیں اور اگلے دن صبح سکول لائیں۔

قاسم نے لالٹین کو ہاتھ میں لیا، دل میں دعا کی، اور احتیاط سے گھر روانہ ہوا۔ راستے میں اس کے دو قریبی دوست، نعمان اور ہاشم، ملے۔ انہوں نے قاسم سے پوچھا، ارے قاسم! یہ تم نے کیا پکڑ رکھا ہے؟
قاسم نے مسکرا کر جواب دیا، یہ سکول کی طرف سے ایک مقابلہ ہے۔ ہمیں یہ لالٹین رات بھر جلتی رکھنی ہے اور صبح سکول لے جانی ہے۔ جو سچائی سے کام لے گا، وہی کامیاب ہوگا۔
ہاشم نے مذاق میں کہا، تو اگر لالٹین بجھ گئی تو کیا جھوٹ بولنا پڑے گا؟
قاسم نے سنجیدگی سے جواب دیا، ہرگز نہیں، چاہے کچھ بھی ہو جائے، میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔
سچائی کا امتحان
رات کا وقت تھا۔ قاسم نے لالٹین کو کمرے کے ایک کونے میں رکھا، خود اس کے قریب بیٹھ گیا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگا۔ باہر آسمان پر بادل چھا چکے تھے، اور ہوا تیز ہو چکی تھی۔ قاسم کی والدہ نے آ کر کہا، بیٹا، تم سو جاؤ، میں لالٹین پر نظر رکھوں گی۔
قاسم نے کہا، نہیں اماں، یہ میری ذمے داری ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ میں خود اس کا خیال رکھوں۔
وقت گزرتا گیا، رات گہری ہوتی گئی، اچانک ایک تیز جھونکا کھڑکی سے اندر آیا، اور قاسم کے دیکھتے ہی دیکھتے لالٹین بجھ گئی۔ قاسم نے چونک کر دیکھا، وہ گھبرا گیا، مگر فوراً اسے اپنے والد کی بات یاد آئی، سچ بولنے والا کبھی ہارتا نہیں۔

قاسم چاہتا تو دوبارہ لالٹین جلادیتا، اس کے پاس تیل بھی تھا اور ماچس بھی۔ مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ دل میں تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور تھی، مگر ضمیر کی آواز بلند تھی۔
سکول میں فیصلہ کن لمحہ
اگلی صبح قاسم سکول پہنچا۔ تمام بچے لالٹینوں کے ساتھ صف میں کھڑے تھے۔ سب کی لالٹینیں روشن تھیں، مگر قاسم کی لالٹین بجھی ہوئی تھی۔ بچوں نے اسے دیکھا اور چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب آئے، ایک ایک بچے سے سوال کیا، ان کی لالٹینوں کو دیکھا۔ جب وہ قاسم کے پاس پہنچے تو وہ چونکے۔
قاسم، تمہاری لالٹین بجھی ہوئی ہے؟
قاسم نے نظریں جھکائے بغیر کہا، جی سر، کل رات اچانک تیز ہوا چلی، اور لالٹین بجھ گئی۔ میں چاہتا تو دوبارہ جلا سکتا تھا، مگر ایسا کرنا دھوکہ ہوتا۔ میرے والدین نے مجھے سچ بولنا سکھایا ہے، اسی لیے میں نے وہی کیا جو درست تھا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے قاسم کی بات سنی، چند لمحے خاموش رہے، پھر مسکرا کر بولے، قاسم، تم نے سچائی کا جو ثبوت دیا ہے، وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
پھر انہوں نے سب بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، یہ مقابلہ دراصل لالٹین کا نہیں تھا، بلکہ سچائی کا امتحان تھا۔ قاسم وہ واحد طالبعلم ہے جس نے سچائی کے راستے کو اپنایا، چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ لہٰذا اصل کامیاب قاسم ہی ہے
انعام اور تعریف
ہیڈ ماسٹر صاحب نے قاسم کو خصوصی انعام سے نوازا۔ اسے نہ صرف ایک خوبصورت سند دی گئی بلکہ پورے سکول کے سامنے اسے ایمانداری کا سفیر قرار دیا گیا۔ قاسم کے والدین کو سکول میں بلایا گیا، اور ان کی تربیت کو سراہا گیا۔ اس دن کے بعد قاسم کا نام پورے گاؤں میں مشہور ہو گیا۔
بچے اسے رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، بڑے اس کی مثالیں دینے لگے۔ قاسم نے نہ صرف ایک مقابلہ جیتا، بلکہ دل بھی جیت لیے۔ گاؤں کے ایک چھوٹے سے بچے نے ثابت کر دیا کہ سچائی کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوتی، چاہے ہوا کتنی بھی تیز ہو۔

کہانی کا سبق
یہ سچی اور سبق آموز کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ
سچائی وقتی طور پر نقصان کا باعث بن سکتی ہے، مگر انجام ہمیشہ کامیابی ہی ہوتی ہے۔
ایمانداری انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
اگر تربیت بچپن سے دی جائے تو بچے بڑے ہو کر معاشرے کا فخر بن سکتے ہیں۔
سچائی کو اپنانا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن یہ دلوں کو روشن کر دیتا ہے۔