چھوٹے گاؤں کا بڑا خواب
پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں نورپور میں ایک کسان فیملی آباد تھی۔ اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا کاشف تھا، جو بچپن ہی سے دوسروں سے مختلف سوچ رکھتا تھا۔ کاشف کے والد ایک معمولی کسان تھے، جو زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر گندم، چاول اور سبزیاں اگا کر بمشکل گھر کا گزارہ کرتے تھے۔
کاشف کی زندگی سادہ تھی۔ وہ نہ تو برانڈڈ کپڑوں کا شوقین تھا، نہ موبائل فون کے پیچھے بھاگتا تھا، اور نہ ہی شہروں کی چمکتی روشنیوں سے متاثر ہوتا تھا۔ لیکن اس کے خواب بہت اونچے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ گاؤں کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں، زراعت میں جدید طریقے اپنائیں، اور دیہی زندگی میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔

علم کا چراغ
کاشف نے میٹرک اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے پاس کیا، لیکن اس کے بعد آگے تعلیم کے لیے اسے شہر جانا پڑا۔ والد نے بڑی مشکل سے پیسے جمع کیے تاکہ وہ انٹرمیڈیٹ کر سکے۔ کاشف نے شہر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی لائبریری میں جز وقتی کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ دن میں کالج جاتا، شام کو لائبریری میں کام کرتا، اور رات کو مطالعہ کرتا۔
اس دوران کاشف نے کئی کتابیں پڑھیں، جنہوں نے اس کی سوچ کو نئی سمت دی۔ اس نے سیکھا کہ اصل ترقی صرف ڈگری لینے سے نہیں آتی بلکہ علم کو عمل میں لانے سے آتی ہے۔ اس کا دل اب بھی گاؤں کے ان بچوں میں اٹکا ہوا تھا جو تعلیم سے محروم تھے، جنہیں اسکول جانے کے بجائے کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔

واپسی کا فیصلہ
انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد جب کاشف کو شہر میں ایک پرکشش نوکری کی آفر ملی، تو سب نے کہا کہ اب تم کامیاب ہو گئے ہو، گاؤں واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن کاشف نے وہ آفر رد کر دی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جائے گا، وہاں ایک چھوٹا سا تعلیمی مرکز بنائے گا اور بچوں کو مفت تعلیم دے گا۔
اس کے والد کو پہلے شک ہوا کہ بیٹے نے اتنی محنت کی، اور اب سب کچھ چھوڑ کر واپس جا رہا ہے؟ لیکن کاشف کی مضبوط ارادے اور سچائی نے سب کو قائل کر لیا۔ اس نے پرانی حویلی کا ایک حصہ تعلیم کے لیے مخصوص کیا، خود تختیاں صاف کیں، زمین پر چٹائیاں بچھائیں اور بچوں کو جمع کرنا شروع کیا۔
سادہ ذرائع، اعلیٰ مقصد
ابتدا میں صرف سات بچے آئے، لیکن کاشف نے دل لگا کر انہیں پڑھانا شروع کیا۔ اس نے پرانے اخبار، رسالے، تصویریں، اور مقامی کہانیاں استعمال کر کے بچوں کو سکھانے کا نیا انداز اپنایا۔ رفتہ رفتہ گاؤں کے لوگ بھی اس کی محنت سے متاثر ہونے لگے۔ کچھ نے کتابیں عطیہ کیں، کچھ نے فرنیچر، اور کچھ نے وقت۔
ایک سال کے اندر اندر اس کے اسکول میں بچوں کی تعداد تیس سے تجاوز کر گئی۔ اب اس کے ساتھ دو مزید رضا کار بھی پڑھانے لگے۔ کاشف نے یوٹیوب پر چینل بنایا جس پر وہ دیہی تعلیم سے متعلق ویڈیوز اپلوڈ کرتا، اور دنیا کو دکھاتا کہ تبدیلی لانے کے لیے وسائل نہیں، نیت چاہیے۔

سوچ کی فتح
پانچ سال گزر گئے۔ اب نورپور لرننگ سینٹر ایک مکمل اسکول بن چکا تھا۔ وہ بچے جو کبھی کھیتوں میں کام کرتے تھے، اب گورنمنٹ کالجوں میں پڑھ رہے تھے۔ کاشف نے کبھی کوئی فیس نہیں لی، بلکہ اسے آن لائن تعلیم کے ذریعے بھی کچھ آمدنی ہونے لگی تھی، جس سے وہ مزید سہولتیں فراہم کر رہا تھا۔
ایک دن ایک رپورٹر اس کے گاؤں آیا اور اس کی کہانی میڈیا پر شائع ہوئی۔ کاشف کو کئی ایوارڈز ملے، لیکن وہ سب سے بڑا انعام ان بچوں کی مسکراہٹوں کو سمجھتا تھا۔ اس کی سادہ زندگی نے اسے وہ مقام دیا جو شاید کسی بڑے عہدے یا دولت سے ممکن نہ ہوتا۔
اختتامیہ: ایک سبق
کاشف کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی سادگی میں ہے، اور عظمت ہمیشہ سوچ کی بلندی سے جنم لیتی ہے۔ وہ لوگ جو خود غرضی چھوڑ کر دوسروں کے لیے جیتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر ہم سب کاشف جیسا ایک قدم بھی اٹھائیں، تو نہ صرف ہمارا معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی روشن مستقبل کی طرف گامزن ہو سکتی ہیں۔