پرندوں کی دنیا خوبصورت جنگل اور رنگ برنگے پرندے
پرانے زمانے کی بات ہے، جب دنیا میں جدید شہر، اونچی عمارتیں اور شور شرابا نہیں تھا۔ زمین ہری بھری، درخت بلند و بالا، اور فضا پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونجتی تھی۔ ان دنوں ایک نہایت ہی خوبصورت، سرسبز اور پُرامن جنگل تھا جہاں ہر طرف درختوں کی قطاریں، پھولوں کی خوشبو، اور ندیوں کی روانی دل کو بھاتی تھی۔
اس جنگل کی سب سے خاص بات وہاں بسنے والے پرندے تھے۔ ننھے منے، رنگ برنگے پرندے، جو اپنی خوبصورتی اور میٹھی آواز سے جنگل کو جنت کا سا منظر دیتے تھے۔ کچھ پرندے نیلے، کچھ پیلے، کچھ سبز، اور کچھ سرخ رنگ کے تھے۔ وہ درختوں پر گھونسلے بناتے، پھل کھاتے، اور ہر صبح و شام اللہ کی تسبیح میں مصروف رہتے۔
ان ہی پرندوں میں ایک چھوٹا سا پرندہ بھی تھا، جس کا نام منھی تھا۔ منھی ایک چنچل، پھرتیلا اور بہت خوبصورت پرندہ تھی۔ اس کے پروں کا رنگ ہلکا نیلا اور سفید تھا، جو دھوپ میں چمکتا تو قوس و قزاح کا گماں ہوتا۔ وہ کبھی ایک درخت سے اُڑ کر دوسرے پر جا بیٹھتی، کبھی ندی کے کنارے جا کر پانی میں اپنا عکس دیکھتی۔ منھی کو اُڑنے کا بہت شوق تھا۔ آسمان کی وسعتیں، نیلے بادل، اور تیز ہوائیں اس کے لیے خوشی کا ذریعہ تھیں۔

منھی کی آواز اور اس کی پریشانی
اگرچہ منھی ہر لحاظ سے ایک مکمل اور دلکش پرندہ تھی، لیکن ایک بات تھی جو اسے اندر ہی اندر پریشان کرتی تھی۔ اس کی آواز باقی پرندوں کی طرح میٹھی اور نرمی سے لبریز نہیں تھی۔ منھی کی آواز تیز، بلند اور کچھ سختی لیے ہوتی تھی۔ جب کبھی وہ چہچہاتی، تو دوسرے پرندے خاموش ہو جاتے۔
منھی اکثر یہ سوچتی کہ اللہ نے اسے خوبصورت تو بنایا، لیکن آواز کیوں ایسی دی جو دوسروں کو پسند نہیں آتی؟ وہ چاہتی تھی کہ باقی پرندوں کی طرح وہ بھی نغمے گائے، اور سب اس کی آواز پر واہ واہ کریں۔ لیکن ہر بار جب وہ گاتی، تو کوئی نہ کوئی پرندہ کوئی ناقدانہ جملہ کہہ دیتا، جو منھی کو مزید غمگین کر دیتا۔
ایک دن جب وہ ندی کے کنارے بیٹھی اپنے عکس کو دیکھ رہی تھی، تو اس نے خود سے کہا کاش میری آواز بھی نرم اور سریلی ہوتی، تو میں بھی سب کے ساتھ گانا گا سکتی۔
جنگل کا موسیقی کا دن
ایک دن جنگل کے عقلمند پرندے نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہم ایک دن ایسا مقرر کریں، جب ہر پرندہ اپنی آواز میں گانا گائے؟ اس کا مقصد یہ تھا کہ سب اپنی آواز پر فخر کریں اور ایک دوسرے کی خوبصورتی کو سراہیں۔ یہ تجویز سب کو بہت پسند آئی۔ پرندوں نے خوشی سے ہاتھ ہلایا، پر پھڑپھڑائے اور تالیوں جیسی آوازوں میں حامی بھری۔
یہ دن جنگل میں موسیقی کا دن کہلایا جانے لگا۔ سب پرندے تیاری میں لگ گئے۔ کوئی جنگل کی نرم شاخوں پر بیٹھ کر مشق کرتا، تو کوئی اپنے گیتوں میں نئے بول ڈالتا۔ سب کے چہروں پر خوشی اور جوش نمایاں تھا۔ اور منھی؟ وہ بھی تیاری کر رہی تھی، لیکن دل ہی دل میں گھبراہٹ کا شکار تھی۔
کیا اگر میری آواز پسند نہ آئی؟
کیا سب پھر میرا مذاق اُڑائیں گے؟
لیکن پھر اس نے خود کو حوصلہ دیا میں بھی اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہوں۔ جو آواز مجھے دی گئی ہے، وہ بھی خوبصورتی کی ایک شکل ہے۔
موسیقی کا دن اور منھی کی باری
جب وہ دن آیا، تو جنگل میں جیسے میلہ لگ گیا۔ درختوں پر جھالریں سی لگ گئیں، پھول اور پتے بکھرے ہوئے تھے، اور ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ پرندے قطاروں میں بیٹھے تھے۔ پہلا پرندہ بولا، میں گانا شروع کرتا ہوں۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے سب پرندے اپنی سریلی آوازوں میں گانے لگے۔
فضا میں ایک عجیب سی جادوئی کیفیت تھی۔ جیسے ہر گیت ہواؤں میں رس گھول رہا ہو۔ پرندے جھوم رہے تھے، بچے پرندے تالیاں بجا رہے تھے، اور سب بہت خوش تھے۔
پھر منھی کی باری آئی۔
جیسے ہی منھی نے گانا شروع کیا، ایک خاموشی سی چھا گئی۔ اس کی آواز بلند اور تیز تھی۔ وہ گانے میں محنت کر رہی تھی، لیکن آواز نرمی سے دور تھی۔ اچانک ایک موڑ بولا
ارے ارے! یہ کیسی آواز ہے؟ یہ تو کوے کی طرح لگتی ہے!
کچھ پرندے ہنسنے لگے، اور منھی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ کچھ بولے بغیر وہاں سے اُڑ گئی اور ایک سنسان درخت پر جا بیٹھی۔

عقلمند پرندے کا پیغام
جب منھی چلی گئی تو جنگل کا ایک دانا اُلو بولا دوستو! کیا ہم نے کسی کو تکلیف دی؟ کیا یہ ہمارا مقصد تھا؟ ہر مخلوق اپنی خوبصورتی کے ساتھ آتی ہے۔ اگر منھی کی آواز تیز ہے، تو کیا پتا یہ کب کسی کے کام آ جائے؟ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں، اور مذاق اُڑا دیا۔
پرندے شرمندہ ہو گئے۔ کچھ نے سر جھکا لیا، اور کچھ نے افسوس سے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا۔
بدلتا موسم اور منھی کی سمجھداری
ادھر منھی درخت پر خاموش بیٹھی تھی۔ وہ اپنے دل کی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ بادل چھا رہے تھے، ہوائیں تیز ہو رہی تھیں، اور کالی گھٹائیں پورے آسمان پر پھیلنے لگیں۔ منھی چونک گئی، وہ فوراً سمجھ گئی کہ زور دار بارش آنے والی ہے۔
منھی نے فوراً اُڑان بھری اور نیچے بیٹھے پرندوں کو زور سے آواز دی دوستو! بارش آنے والی ہے، فوراً محفوظ درخت کے نیچے چلے آؤ!
لیکن پرندے ابھی بھی گانے میں مصروف تھے، اور کسی نے اس کی بات پر توجہ نہ دی۔ پھر کچھ دیر بعد آسمان گرجا، بجلی چمکی، اور بارش زور سے برسنے لگی۔
تیز آواز کا فائدہ اور پرندوں کی نجات
بارش اتنی زور سے ہوئی کہ پرندوں کو کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔ وہ گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر اُڑنے لگے۔ ایسے میں منھی نے ایک بار پھر زور سے پکارا
اس درخت کے نیچے آ جاؤ! یہ جگہ محفوظ ہے!
اس بار اس کی بلند آواز سب پرندوں تک پہنچ گئی۔ انہوں نے فوراً اس طرف اُڑان بھری، اور سب ایک ساتھ اس محفوظ جگہ پہنچ گئے۔ بارش جاری رہی، لیکن پرندے اب بارش سے محفوظ تھے۔
جب بارش رکی، تو آسمان صاف ہو گیا۔ قوس و قزاح آسمان پر نمایاں ہو گئی، اور ہوا میں ایک خوشبو سی پھیل گئی۔ سب پرندے خوشی سے ناچنے لگے۔

منھی کی اہمیت اور اخلاقی سبق
اب سب پرندے منھی کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ خاص طور پر وہی موڑ، جس نے پہلے اس کی آواز کا مذاق اُڑایا تھا، شرمندگی سے منھی کے پاس آیا اور بولا
منھی، میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔ تمہاری آواز نے آج ہماری جان بچائی۔ اگر تم نہ ہوتیں، تو ہم سب مشکل میں پڑ جاتے۔
منھی نے نرمی سے مسکرا کر کہا ہم سب دوست ہیں، اور دوستوں کے درمیان معافی اور محبت ہونی چاہیے۔
اب جنگل میں جشن کا سماں تھا۔ پرندے ناچ رہے تھے، گیت گا رہے تھے، اور منھی کو سراہا جا رہا تھا۔ اُس کی آواز کو اب سب احترام سے سنتے تھے، کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ ہر آواز، ہر صلاحیت، اور ہر مخلوق اپنی جگہ قیمتی ہوتی ہے۔
کہانی سے اہم سبق
اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے
ہر فرد یا مخلوق میں کوئی نہ کوئی خاص خوبی ہوتی ہے۔
ظاہری فرق کی بنیاد پر کسی کا مذاق اُڑانا نہایت غلط بات ہے۔
ہمیں دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم کرنا اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔
جو بات ہمیں کمزوری لگتی ہے، وہی کسی دن سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔
سچی دوستی معافی، محبت، اور احترام پر قائم ہوتی ہے۔